حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ 8 جنوری 2025 کی صبح قم کے عوام کے 9 جنوری سنہ 1978 کے قیام کی برسی کی مناسبت سے ہونے والی ملاقات میں ایرانی قوم کے بارے میں امریکا کی پچھلے چھیالیس برسوں سے اندازے کی غلطی اور غلط پالیسیوں کو، 9 جنوری کے تاریخی قیام کے تجزیے میں امریکیوں کی اسی اندازے کی غلطی کا تسلسل بتایا۔
آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 9 جنوری کے قیام سے سبق لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دشمن کی طاقت کے وہم کا پردہ چاک کرنے اور رائے عامہ کو محفوظ بنانے کے لیے میڈیا اور سائبر اسپیس میں کام کرنے والوں کی لگاتار، بھرپور اور مؤثر کوشش کو آج کی اہم ضرورت بتایا۔
انھوں نے قم کے عوام کے 9 جنوری کے قیام کو مختلف دروس اور عبرتوں کا حامل بتایا اور کہا کہ اس دن کا سب سے اہم درس یہ دکھاتا ہے کہ امریکا کس طرح کے ایران کو پسند کرتا ہے اور اس کی آرزو رکھتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 31 دسمبر 1977 کو امریکا کے اس وقت کے صدر جمی کارٹر کے دورۂ تہران، ان کی جانب سے محمد رضا کی جھوٹی تعریفوں اور پہلوی ایران کو "استحکام کا جزیرہ" بتائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1977 کا ایران، جسے کارٹر، امریکا کا مطلوبہ ایران سمجھتے تھے، خارجہ پالیسی کے لحاظ سے امریکیوں کا بندۂ بے دام اور ان کے مفادات کی تکمیل کرنے والا اور داخلہ پالیسی کے لحاظ سے حکومت کے تمام مخالف یہاں تک کہ اختلاف رکھنے والے دھڑوں کی شدید سرکوبی کرنے والا تھا۔
انھوں نے اس زمانے میں معاشی اور سماجی میدانوں میں امریکا کے مطلوبہ ایران کی خصوصیات بتاتے ہوئے کہا کہ معاشی لحاظ سے تیل کی زبردست آمدنی کا مالک لیکن پوری طرح سے طبقاتی نظام والا، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پچھڑا ہوا اور ثقافت کے لحاظ سے ایک ایسا ملک تھا جس میں مغربی بد چلنی، بے حیائي اور بے راہ روی کا کلچر روز بروز پھیلتا جا رہا تھا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ 9 جنوری کے قیام نے، امریکیوں کے مطلوبہ ایران کو ان کے چنگل سے باہر نکال دیا لیکن امریکا اب بھی اسی ایران کی آرزو میں ہے لیکن جس طرح کارٹر اپنی اس آرزو کو لیے ہوئے قبر میں چلے گئے، دوسرے امریکی بھی اسی آرزو کے ساتھ قبر میں پہنچ جائيں گے۔
انھوں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو سامراج کی کنکریٹ کی دیوار میں پڑنے والی ایک دراڑ اور مغرب کے قلعے میں ایک زلزلے سے تعبیر کیا اور کہا کہ 9 جنوری کے قیام کا ایک دوسرا سبق یہ ہے کہ ہم اپنی رائے عامہ کو، دشمن کے پروپیگنڈوں سے محفوظ رکھیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دسمبر 1977 میں ایک اخبار میں امام خمینی کے خلاف ایک توہین آمیز مضمون کی اشاعت کو پروپیگنڈے پر امریکیوں اور پہلوی حکومت کی توجہ اور اس سے استفادے کا نتیجہ بتایا اور کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے قریب سے امام خمینی کی زبان کی ذوالفقار کی دھار کو، جو لوگوں کے دلوں کو امید عطا کرتی تھی اور انھیں پرجوش رکھتی تھی، ختم کر دیں لیکن قم والوں نے اپنی ذہانت اور امریکی اور پہلوی پروپیگنڈوں پر بھروسہ نہ کرتے ہوئے، اس حرکت کو ناکام بنا دیا۔
انھوں نے امریکیوں کی جانب سے سازشوں اور منصوبوں کے ہارڈ وئير نتائج کو مضبوط بنانے کے لیے پروپیگنڈے کے سافٹ وئير حربے سے پہلے کی نسبت ہزاروں گنا زیادہ فائدہ اٹھائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں دسیوں ہزار انسانوں کا قتل عام کیا گيا لیکن وہ مزاحمت کو ہارڈ وئیر طریقے سے ختم نہ کر سکے۔ لبنان میں بھی انھوں نے سید حسن نصر اللہ جیسی شخصیت اور دیگر کمانڈروں کو شہید کر دیا لیکن حزب اللہ ختم نہیں ہوئي اور نہ ہی مستقبل میں ختم ہوگي۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں قدرتی وسائل اور دنیا کی اوسط شرح سے پیشرفتہ افرادی قوت جیسے گرانقدر تحائف کا حامل ہونے کی وجہ سے ایران کو دنیا میں ایک اسٹریٹیجک چوٹی بتایا اور کہا کہ ایران، لگ بھگ اسّی سال پہلے، کئي عشروں تک امریکا کے ہاتھ میں تھا لیکن اسلامی انقلاب نے ملک کو امریکا کی مٹھی سے باہر نکال دیا اور یہی وجہ ہے کہ انقلاب سے ملنے والی چوٹ کو فراموش نہیں کر پا رہے ہیں۔
انھوں نے بعض لوگوں کے اس سوال کے جواب میں کہ کیوں اسلامی جمہوریہ، یورپی ملکوں سے تو تعلقات رکھتی ہے لیکن امریکا سے مذاکرات اور روابط کے لیے تیار نہیں ہے؟ کہا کہ انقلاب سے پہلے کا ایران، امریکا کی ملکیت میں تھا لیکن اسلامی انقلاب اس بات کا سبب بنا کہ وہ عظیم سیاسی و معاشی ثروت امریکیوں کے ہاتھ سے نکل جائے اور اسی لیے وہ انقلاب سے شتر کینہ رکھتے ہیں اور یہ چیز یورپی ملکوں سے بالکل مختلف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران سمیت تمام ملکوں کے حکام سے سامراج اور اس میں سب سے اوپر امریکی حکومت کا ایک مطالبہ، مختلف مسائل اور منصوبوں کی تیاری میں امریکیوں کے مفادات کا خیال رکھنا بتایا اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکا کی بے جا توقع کے سامنے جھکنا، ملک میں جمہوریت اور ڈیموکریسی کے لیے خطرہ ہے، کہا کہ عوام نے عہدیداران کو امریکا کے مفادات نہیں بلکہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ووٹ دیا ہے بنابریں پالیسی میکرز اور اہم فیصلے کرنے والوں کو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے مفادات پر توجہ دینی چاہیے اور کسی بھی صورت میں امریکا اور صیہونیوں کے مفادات کا لحاظ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہماری قوم اور اسلامی جمہوریہ کے کٹّر دشمن ہیں اور ان کی آرزو، ایران کی تباہی ہے۔
انھوں نے پچھلے چھیالیس برسوں میں بے تحاشا پیسے خرچ کرنے کے باوجود ایران کو واپس لینے میں امریکا کی ناکامی کو، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ سے امریکیوں کے کینے کی ایک دوسری وجہ بتایا اور کہا کہ امریکا کو اس ملک میں شکست ہوئي ہے اور وہ اس شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ جہاں تک ممکن ہو، ایران کے لوگوں سے دشمنی کر رہا ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے ایک بار پھر 9 جنوری کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے اس کا ایک اور سبق، امریکا کی اندازے کی غلطی کو سامنے لانا اور ایران کے حقائق کو سمجھنے میں ان کی عدم صلاحیت کو ثابت کرنا بتایا۔
انھوں نے کہا کہ جو لوگ امریکا کی ظاہری باتوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور خداوند عالم اور ایرانی قوم کی عظمت کو فراموش کر دیتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں کہ امریکیوں کے لیے "استحکام کے جزیرے" کی کارٹر کی جانب سے تعریف و تمجید کے صرف 9 دن بعد ہی آگے آگے رہنے والے اہل قم کے قیام نے دکھا دیا کہ امریکا، ایران کے مسائل کو سمجھنے میں کتنا پیچھے اور غافل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے "سامراج کے سب سے اہم مورچے" کے اندر اسلامی انقلاب کی کامیابی کو فرعون کے محل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش سے تشبیہ دی اور کہا کہ امریکی سوتے رہ گئے اور عظیم اسلامی انقلاب، ان کے مفادات کے مضبوط قلعے کے اندر سے شروع ہو کر کامیاب ہو گيا۔
انھوں نے 9 جنوری کے واقعے کے بعد نجف اشرف سے امام خمینی کے پیغام اور ایرانی قوم کی فتح کی بشارت کو، امید کی اہمیت پر امام خمینی کی جانب سے بہت زیادہ توجہ دیے جانے کا ایک نمونہ بتایا اور کہا کہ جس دن امام خمینی نے تحریک کی کامیابی کی خوشخبری دی تھی، اس دن کون یقین کر سکتا تھا کہ انقلاب کامیاب ہوگا اور اس خطے میں اسلامی جمہوریہ جیسی ایک بڑی اور روایات توڑنے والی طاقت سر اٹھائے گي جو مغرب کی بہت سی جارحیتوں اور خباثت آمیز اہداف پر لگام لگا دے گي؟ اور کون اس بات پر یقین کر سکتا تھا کہ ایک ایسا دن بھی آئے گا جب مغربی ملکوں میں یہاں تک کہ خود واشنگٹن میں بھی امریکی پرچم نذر آتش کیا جائے گا؟
آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ شام سمیت خطے کے واقعات، مسئلۂ فلسطین کی اہمیت کم ہونے کا سبب نہ بنیں، کہا کہ مزاحمت کی اصل بنیاد، صیہونی حکومت کے خباثت آمیز اقدامات کے مقابل ڈٹ جانا ہے۔
انھوں نے مزاحمت کے زندہ رہنے اور روز بروز زیادہ طاقتور ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ میں، غرب اردن میں، لبنان میں، یمن میں اور ہر اس جگہ مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں جہاں صیہونی حکومت کے خلاف لوگ استقامت دکھاتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ